میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا
کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس
مبارک عظیم آبادی
لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس
اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس
مبارک عظیم آبادی
کیا کہیں کیا کیا کیا تیری نگاہوں نے سلوک
دل میں آئیں دل میں ٹھہریں دل میں پیکاں ہو گئیں
مبارک عظیم آبادی
کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا
جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے
مبارک عظیم آبادی
کسی سے آج کا وعدہ کسی سے کل کا وعدہ ہے
زمانے کو لگا رکھا ہے اس امیدواری میں
مبارک عظیم آبادی
کسی نے برچھیاں ماریں کسی نے تیر مارے ہیں
خدا رکھے انہیں یہ سب کرم فرما ہمارے ہیں
مبارک عظیم آبادی
کسی کی تمنا نکلتی رہی
مری آرزو ہاتھ ملتی رہی
مبارک عظیم آبادی
کس پہ دل آیا کہاں آیا بتا اے ناصح
تو مری طرح پریشان کہاں جاتا ہے
مبارک عظیم آبادی
کھٹک رہی ہے کوئی شے نکال دے کوئی
تڑپ رہا ہے دل بے قرار سینے میں
مبارک عظیم آبادی