کہاں قسمت میں اس کی پھول ہونا
وہی دل کی کلی ہے اور ہم ہیں
مبارک عظیم آبادی
کبھی دل کی کلی کھلی ہی نہیں
اعتبار بہار کون کرے
مبارک عظیم آبادی
کب وہ آئیں گے الٰہی مرے مہماں ہو کر
کون دن کون برس کون مہینہ ہوگا
مبارک عظیم آبادی
کب ان آنکھوں کا سامنا نہ ہوا
تیر جن کا کبھی خطا نہ ہوا
مبارک عظیم آبادی
جو ان کو چاہئے وہ کیے جا رہے ہیں وہ
جو مجھ کو چاہئے وہ کیے جا رہا ہوں میں
مبارک عظیم آبادی
آئنہ سامنے اب آٹھ پہر رہتا ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ مد مقابل ہو جائے
مبارک عظیم آبادی
جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں
دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں
مبارک عظیم آبادی
جو لڑکھڑائے قدم مے کدے میں مستوں کے
بغل میں حضرت ناصح تھے بڑھ کے تھام لیا
مبارک عظیم آبادی
جو دل نشیں ہو کسی کے تو اس کا کیا کہنا
جگہ نصیب سے ملتی ہے دل کے گوشوں میں
مبارک عظیم آبادی