گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی
سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے
مبارک عظیم آبادی
دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے
اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے
مبارک عظیم آبادی
دل میں آنے کے مبارکؔ ہیں ہزاروں رستے
ہم بتائیں اسے راہیں کوئی ہم سے پوچھے
مبارک عظیم آبادی
دل لگاتے ہی تو کہہ دیتی ہیں آنکھیں سب کچھ
ایسے کاموں کے بھی آغاز کہیں چھپتے ہیں
مبارک عظیم آبادی
اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو
اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے
مبارک عظیم آبادی
بکھری ہوئی ہے یوں مری وحشت کی داستاں
دامن کدھر کدھر ہے گریباں کہاں کہاں
مبارک عظیم آبادی
بے وفا عمر دغاباز جوانی نکلی
نہ یہی رہتی ہے ظالم نہ وہی رہتی ہے
مبارک عظیم آبادی
بیش و کم کا شکوہ ساقی سے مبارکؔ کفر تھا
دور میں سب کے بقدر ظرف پیمانہ رہا
مبارک عظیم آبادی
اثر ہو یا نہ ہو واعظ بیاں میں
مگر چلتی تو ہے تیری زباں خوب
مبارک عظیم آبادی