پھر نہ درماں کا کبھی نام مبارکؔ لینا
کفر ہے درد محبت کا مداوا کرنا
مبارک عظیم آبادی
مسجد کی سر راہ بنا ڈال نہ زاہد
اس روک سے ہونے کے نہیں کوئے بتاں بند
مبارک عظیم آبادی
محراب عبادت خم ابرو ہے بتوں کا
کر بیٹھے ہیں کعبے کو مسلمان فراموش
مبارک عظیم آبادی
مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی
جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی
مبارک عظیم آبادی
میری دشواری ہے دشواری مری
میری مشکل آپ کی مشکل نہیں
مبارک عظیم آبادی
ملو ملو نہ ملو اختیار ہے تم کو
اس آرزو کے سوا اور آرزو کیا ہے
مبارک عظیم آبادی
مری خاک بھی اڑے گی با ادب تری گلی میں
ترے آستاں سے اونچا نہ مرا غبار ہوگا
مبارک عظیم آبادی
محبت میں وفا کی حد جفا کی انتہا کیسی
مبارکؔ پھر نہ کہنا یہ ستم کوئی سہے کب تک
مبارک عظیم آبادی
مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے
ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا
مبارک عظیم آبادی