ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
جانا ہے کہیں اور تو جاتا ہوں کہیں اور
جب تو ہی کرے دشمنی ہم سے تو غضب ہے
تیرے تو سوا اپنا کوئی دوست نہیں اور
میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور
وعدہ تو ترے آنے کا ہے سچ ہی ولیکن
بازو کے پھڑکنے سے ہوا دل کو یقیں اور
آخر تو کہاں کوچہ ترا اور کہاں ہم
کر لیویں یہاں بیٹھ کے اک آہ حزیں اور
تھا روئے زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور
نام اپنا لکھاوے تو لکھا دل پہ تو میرے
اس نام کو بہتر نہیں اس سے تو نگیں اور
ابرو کی تو تھی چین مرے دل پہ غضب پر
مژگاں سے نمودار ہوئے خنجر کیں اور
نکلے تو اسی کوچہ سے یہ گم شدہ نکلے
ڈھونڈھے ہے حسنؔ دل کو تو پھر ڈھونڈ وہیں اور
غزل
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
میر حسن