نوجوانی کی دید کر لیجے
اپنے موسم کی عید کر لیجے
کون کہتا ہے کون سنتا ہے
اپنی گفت و شنید کر لیجے
اب کے بچھڑے ملوگے پھر کہ نہیں
کچھ تو وعدہ وعید کر لیجے
اپنے گیسو دراز کے مجھ کو
سلسلے میں مرید کر لیجے
ہے مثل ایک ناہ صد آسان
یاس ہی کو امید کر لیجے
ہاں عدم میں کہاں ہے عشق بتاں
اس کو یاں سے خرید کر لیجے
وصل تب ہو ادھر جب ایدھر سے
پہلے قطع و برید کر لیجے
قتل کیا بے گنہ کا مشکل ہے
چاہیئے جب شہید کر لیجے
اس کی الفت میں روتے روتے حسنؔ
یہ سیہ کو سپید کر لیجے
غزل
نوجوانی کی دید کر لیجے
میر حسن