دل کی زمیں سے کون سی بہتر زمین ہے
پر جان تو بھی ہو تو عجب سر زمین ہے
سر کو نہ پھینک اپنے فلک پر غرور سے
تو خاک سے بنا ہے ترا گھر زمین ہے
روتا پھرا ہے کون یہ سرگشتہ اے فلک
جیدھر نظر پڑے ہے ادھر تر زمین ہے
آئینہ کی طرح سے نظر ہے تو دیکھ لے
روشن دلوں کی گھر کی منور زمین ہے
شاید نہا کے آج نچوڑی ہے تو نے زلف
گھر کی تمام تیری معنبر زمین ہے
گیتی نے زیر چرخ رکھا ہے سبھوں کو تھام
اس کشتیٔ جہان کی لنگر زمین ہے
لے دل سے چشم تک مرے دریا سا ہے بھرا
دونوں گھروں کی غرق سراسر زمین ہے
اول یہی ہے باعث خوں ریزیٔ جہاں
زیور ہے زن ہے زور ہے یا زن زمین ہے
اس تنگ نائے دہر سے جاؤں کدھر نکل
اودھر ہے آسمان اور ایدھر زمین ہے
جز خون کوہ کن نہ اگے واں سے کوئی گل
شیریں کی راہ عشق کی پتھر زمین ہے
روندے ہو نقش پا کی طرح جس کو تم حسنؔ
دیکھو گے کوئی دن یہی سر پر زمین ہے
غزل
دل کی زمیں سے کون سی بہتر زمین ہے
میر حسن