اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
اپنے ساتھ آپ ہی کرتے ہوے جنگ آتے ہیں
حسن میں جب تئیں گرمی نہ ہو جی دیوے کون
شمع تصویر کے کب گرد پتنگ آتے ہیں
دل کو کس بو قلموں جلوہ نے ہے خون کیا
اشک آنکھوں سے جو یہ رنگ برنگ آتے ہیں
آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں
شرط گر پوچھو تو ہے اس میں بھی قسمت ورنہ
عاشقی کرنے کے ہر ایک کو ڈھنگ آتے ہیں
نخل وحشت بھی مگر ان کا ثمر رکھتا ہے
ہر طرف سے جو یہ دیواروں پہ سنگ آتے ہیں
حیرت افزا ہے عجب کوچۂ دل دار حسنؔ
جو وہاں جاتے ہیں اس طرف سے دنگ آتے ہیں
غزل
اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
میر حسن