نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
اک رہا حسن یار ہی آخر
اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر
آتش دل پہ آب لے دوڑا
دیدۂ اشک بار ہی آخر
ضد سے ناصح کی میں نے کر ڈالا
جیب کو تار تار ہی آخر
کیوں نہ ہوں تیرے در پہ ہونا ہے
ایک دن تو غبار ہی آخر
کام آیا نہ جائے شمع مزار
یہ دل داغدار ہی آخر
شمع رو پر مثال پروانہ
ہو گئے ہم نثار ہی آخر
وہ نہ آیا ادھر حسنؔ افسوس
رہ گیا انتظار ہی آخر
غزل
نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
میر حسن