چاند خاموش جا رہا تھا کہیں
ہم نے بھی اس سے کوئی بات نہ کی
محمود ایاز
دولت غم بھی خس و خاک زمانہ میں گئی
تم گئے ہو تو مہ و سال کہاں ٹھہرے ہیں
محمود ایاز
جینے والوں سے کہو کوئی تمنا ڈھونڈیں
ہم تو آسودۂ منزل ہیں ہمارا کیا ہے
محمود ایاز
کوئی دن اور غم ہجر میں شاداں ہو لیں
ابھی کچھ دن میں سمجھ جائیں گے دنیا کیا ہے
محمود ایاز
لفظ و منظر میں معانی کو ٹٹولا نہ کرو
ہوش والے ہو تو ہر بات کو سمجھا نہ کرو
محمود ایاز
مصاف زیست میں وہ رن پڑا ہے آج کے دن
نہ میں تمہاری تمنا ہوں اور نہ تم میرے
محمود ایاز
شمع شب تاب ایک رات جلی
جلنے والے تمام عمر جلے
محمود ایاز
تو رو بہ رو ہو تو اے روئے یار تجھ سے کہیں
وہ حرف غم کہ حریف غم زمانہ ہے
محمود ایاز
وہ مرے ساتھ ہے سائے کی طرح
دل کی ضد ہے کہ نظر بھی آئے
محمود ایاز