EN हिंदी
پلک جھپکتے میں کٹتے ہیں روز و شب مہ و سال (ردیف .. ے) | شیح شیری
palak jhapakte mein kaTte hain roz o shab mah o sal

غزل

پلک جھپکتے میں کٹتے ہیں روز و شب مہ و سال (ردیف .. ے)

محمود ایاز

;

پلک جھپکتے میں کٹتے ہیں روز و شب مہ و سال
جو فاصلے تھے من و تو کے درمیاں نہ رہے

وفا رفاقت یک عمر کچھ نہیں لیکن
یہ چاہتا ہوں کہ روؤں بہت گلے مل کے

مصاف زیست میں وہ رن پڑا ہے آج کے دن
نہ میں تمہاری تمنا ہوں اور نہ تم میرے

رفیق و یار کہاں اے حجاب تنہائی
بس اپنے چہرے کو تکتا ہوں آئینہ رکھ کے

ہزار شور تماشا ہو آنکھ باز نہ ہو
وہ خواب دیکھ کے بیٹھا ہوں عمر بھر کے لیے