EN हिंदी
حیرت جلوہ مقدر ہے تو جلوا کیا ہے | شیح شیری
hairat-e-jalwa muqaddar hai to jalwa kya hai

غزل

حیرت جلوہ مقدر ہے تو جلوا کیا ہے

محمود ایاز

;

حیرت جلوہ مقدر ہے تو جلوا کیا ہے
تجھ سے وابستہ ہے دل ورنہ تماشا کیا ہے

کوئی دن اور غم ہجر میں شاداں ہو لیں
ابھی کچھ دن میں سمجھ جائیں گے دنیا کیا ہے

دل تو اک اور ہی آہنگ پہ ہے رقص کناں
دل کا اس عمر فرومایہ سے رشتہ کیا ہے

ہم اسے بھول چکے ہیں مگر اے دور حیات
سامنے آنکھوں کے یہ صورت زیبا کیا ہے

جینے والوں سے کہو کوئی تمنا ڈھونڈیں
ہم تو آسودۂ منزل ہیں ہمارا کیا ہے