حیرت جلوہ مقدر ہے تو جلوا کیا ہے
تجھ سے وابستہ ہے دل ورنہ تماشا کیا ہے
کوئی دن اور غم ہجر میں شاداں ہو لیں
ابھی کچھ دن میں سمجھ جائیں گے دنیا کیا ہے
دل تو اک اور ہی آہنگ پہ ہے رقص کناں
دل کا اس عمر فرومایہ سے رشتہ کیا ہے
ہم اسے بھول چکے ہیں مگر اے دور حیات
سامنے آنکھوں کے یہ صورت زیبا کیا ہے
جینے والوں سے کہو کوئی تمنا ڈھونڈیں
ہم تو آسودۂ منزل ہیں ہمارا کیا ہے
غزل
حیرت جلوہ مقدر ہے تو جلوا کیا ہے
محمود ایاز