انہیں فریاد نازیبا لگے ہے
ستم کرتے بہت اچھا لگے ہے
خدا اس بزم میں حافظ ہے دل کا
یہاں ہر روز اک چرکا لگے ہے
انہیں اپنے بھی لگتے ہیں پرائے
پرایا بھی ہمیں اپنا لگے ہے
بغیر اس بے وفا سے جی لگائے
جو سچ پوچھو تو جی کس کا لگے ہے
محبت دل لگی جانو ہو پیارے
وہی جانے ہے دل جس کا لگے ہے
اٹھا آگے سے ساقی جام و مینا
دل اچھا ہو تو سب اچھا لگے ہے
ذرا دیکھ آئنہ میری وفا کا
کہ تو کیسا تھا اب کیسا لگے ہے
غزل سن کر مری کہنے لگے وہ
مجھے یہ شخص دیوانہ لگے ہے
ضرور آیا کرو جلسے میں عاجزؔ
نہ آؤ ہو تو سناٹا لگے ہے
غزل
انہیں فریاد نازیبا لگے ہے
کلیم عاجز