بلاتے کیوں ہو عاجزؔ کو بلانا کیا مزا دے ہے
غزل کم بخت کچھ ایسی پڑھے ہے دل ہلا دے ہے
محبت کیا بلا ہے چین لینا ہی بھلا دے ہے
ذرا بھی آنکھ جھپکے ہے تو بیتابی جگا دے ہے
ترے ہاتھوں کی سرخی خود ثبوت اس بات کا دے ہے
کہ جو کہہ دے ہے دیوانہ وہ کر کے بھی دکھا دے ہے
غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس آفت جاں کو
شرارت خود کرے ہے اور ہمیں تہمت لگا دے ہے
مری بربادیوں کا ڈال کر الزام دنیا پر
وہ ظالم اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دے ہے
اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو
لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہم سایہ ہوا دے ہے
کلیجہ تھام کر سنتے ہیں لیکن سن ہی لیتے ہیں
مرے یاروں کو میرے غم کی تلخی بھی مزا دے ہے
غزل
بلاتے کیوں ہو عاجزؔ کو بلانا کیا مزا دے ہے
کلیم عاجز