سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر
جرأت قلندر بخش
سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیے
پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات
جرأت قلندر بخش
شاگرد رشید آپ سا ہوں شیخ جی صاحب
کچھ علم و عمل تم نے نہ شیطان میں چھوڑا
جرأت قلندر بخش
شاید اسی کا ذکر ہو یارو میں اس لیے
سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات
جرأت قلندر بخش
شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا
کھلتے ہی آنکھ کانپنے سارا بدن لگا
جرأت قلندر بخش
شیخ جی ہم تو ہیں ناداں پر اسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا
جرأت قلندر بخش
سیکھئے جرأتؔ کسی سے کوئی بازی کوئی کھیل
اس بہانے سے کوئی واں ہم کو لے تو جائے گا
جرأت قلندر بخش
سن وصف دہن دیجئے کچھ منہ سے پیارے
مجھ شاعر مفلس کی ہے گزران صلے پر
جرأت قلندر بخش
تا فلک لے گئی بیتابیٔ دل تب بولے
حضرت عشق کہ پہلا ہے یہ زینا اپنا
جرأت قلندر بخش