پوچھی جو اس سے میں دل صد چاک کی خبر
الجھا کے اپنی زلف وہ شانے سے اٹھ گیا
جرأت قلندر بخش
پوچھو نہ کچھ سبب مرے حال تباہ کا
الفت کا یہ ثمر ہے نتیجہ ہے چاہ کا
جرأت قلندر بخش
قائم رہے کیا عمارت دل
بنیاد میں تو پڑا ہے ڈھہنا
جرأت قلندر بخش
قفس میں ہم صفیرو کچھ تو مجھ سے بات کر جاؤ
بھلا میں بھی کبھی تو رہنے والا تھا گلستاں کا
جرأت قلندر بخش
قہر تھیں در پردہ شب مجلس میں اس کی شوخیاں
لے گیا دل سب کے وہ اور سب سے شرماتا رہا
جرأت قلندر بخش
رہے قفس ہی میں ہم اور چمن میں پھر پھر کر
ہزار مرتبہ موسم بہار کا پہنچا
جرأت قلندر بخش
رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم
تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا
جرأت قلندر بخش
روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے
سمجھے ہے موسم اسے برسات کا
جرأت قلندر بخش
روز و شب کوئی تمہارے دھیان میں مصروف ہے
کچھ تمہیں بھی دھیان ہے پیارے کسی کے دھیان کا
جرأت قلندر بخش