EN हिंदी
جرأت قلندر بخش شیاری | شیح شیری

جرأت قلندر بخش شیر

127 شیر

پوچھی جو اس سے میں دل صد چاک کی خبر
الجھا کے اپنی زلف وہ شانے سے اٹھ گیا

جرأت قلندر بخش




پوچھو نہ کچھ سبب مرے حال تباہ کا
الفت کا یہ ثمر ہے نتیجہ ہے چاہ کا

جرأت قلندر بخش




قائم رہے کیا عمارت دل
بنیاد میں تو پڑا ہے ڈھہنا

جرأت قلندر بخش




قفس میں ہم صفیرو کچھ تو مجھ سے بات کر جاؤ
بھلا میں بھی کبھی تو رہنے والا تھا گلستاں کا

جرأت قلندر بخش




قہر تھیں در پردہ شب مجلس میں اس کی شوخیاں
لے گیا دل سب کے وہ اور سب سے شرماتا رہا

جرأت قلندر بخش




رہے قفس ہی میں ہم اور چمن میں پھر پھر کر
ہزار مرتبہ موسم بہار کا پہنچا

جرأت قلندر بخش




رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم
تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا

جرأت قلندر بخش




روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے
سمجھے ہے موسم اسے برسات کا

جرأت قلندر بخش




روز و شب کوئی تمہارے دھیان میں مصروف ہے
کچھ تمہیں بھی دھیان ہے پیارے کسی کے دھیان کا

جرأت قلندر بخش