تا صبح مری آہ جہاں سوز سے کل رات
کیا گنبد افلاک یہ حمام سا تھا گرم
جرأت قلندر بخش
طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب
ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا
جرأت قلندر بخش
ٹھہری تھی غذا اپنی جو غم عشق بتاں میں
سو آہ ہماری ہمیں خوراک نے کھایا
جرأت قلندر بخش
تھے بیابان محبت میں جو گریاں آہ ہم
منزل مقصود کو پہنچے تری کی راہ ہم
جرأت قلندر بخش
تجھ سا جو کوئی تجھ کو مل جائے گا تو باتیں
میری طرح سے تو بھی چپکا سنا کرے گا
جرأت قلندر بخش
اس گھر کے در پہ جب ہوئے ہم خاک تب کھلا
دروازہ آنے جانے کو اور یاں ہے دوسرا
جرأت قلندر بخش
اس شخص نے کل ہاتوں ہی ہاتوں میں فلک پر
سو بار چڑھایا مجھے سو بار اتارا
جرأت قلندر بخش
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرأت قلندر بخش
واں سے آیا ہے جواب خط کوئی سنیو تو ذرا
میں نہیں ہوں آپ میں مجھ سے نہ سمجھا جائے گا
جرأت قلندر بخش