جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے
تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا
جرأت قلندر بخش
جہاں کے باغ میں ہم بھی بہار دکھلاتے
یہ رنگ غنچہ جو اپنی گرہ میں زر ہوتا
جرأت قلندر بخش
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
ہمارا شعر بھی مشہور ہوگا
جرأت قلندر بخش
جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم
آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا
جرأت قلندر بخش
جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ
ایسا اسے کیا سمجھے ہو تم منہ کا نوالا
جرأت قلندر بخش
جس نور کے بکے کو مہ و خور نے نہ دیکھا
کمبخت یہ دل لوٹے ہے اس پردہ نشیں پر
جرأت قلندر بخش
جو آج چڑھاتے ہیں ہمیں عرش بریں پر
دو دن کو اتاریں گے وہی لوگ زمیں پر
جرأت قلندر بخش
جو کہ سجدہ نہ کرے بت کو مرے مشرب میں
عاقبت اس کی کسی طور سے محمود نہیں
جرأت قلندر بخش
کافر ہوں جو محرم پہ بھی ہاتھ اس کے لگا ہو
مشہور غلط محرم اسرار ہوئے ہم
جرأت قلندر بخش