کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن
کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا
جرأت قلندر بخش
کیفیت محفل خوباں کی نہ اس بن پوچھو
اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا
جرأت قلندر بخش
کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت
کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا
جرأت قلندر بخش
کر لیتا ہوں بند آنکھیں میں دیوار سے لگ کر
بیٹھے ہے کسی سے جو کوئی پیار سے لگ کر
جرأت قلندر بخش
کھائے سو پچھتائے اور پچھتائے وہ بھی جو نہ کھائے
یہ غم عشق بتاں لڈو ہے گویا بور کا
جرأت قلندر بخش
خلل اک پڑ گیا ناحق گل و بلبل کی صحبت میں
عبث کھولا تھا تو نے باغ میں اے گل بدن اپنا
جرأت قلندر بخش
خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی
تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا
جرأت قلندر بخش
کی بے زری فلک نے حوالے نجیب کے
پاجی ہر ایک صاحب زر آئے ہے نظر
جرأت قلندر بخش
کشت دل فوج غم نے کی تاراج
تس پہ تو مانگنے خراج آیا
جرأت قلندر بخش