EN हिंदी
کس سے اظہار مدعا کیجے | شیح شیری
kis se izhaar-e-muddaa kije

غزل

کس سے اظہار مدعا کیجے

جون ایلیا

;

کس سے اظہار مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے

ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیجے تو کیا کیا کیجے

آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے

ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے

ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغ پا کیجے

ہے تو بارے یہ عالم اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے

آج ہم کیا گلہ کریں اس سے
گلۂ تنگیٔ قبا کیجے

نطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے

حضرت زلف غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے

زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے

مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے

ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجے

کوہ کن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے

مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے