EN हिंदी
منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں | شیح شیری
mansab na kulah chahta hun

غزل

منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں

افتخار عارف

;

منصب نہ کلاہ چاہتا ہوں
تنہا ہوں گواہ چاہتا ہوں

اے اجر عظیم دینے والے!
توفیق گناہ چاہتا ہوں

میں شعلگئ وجود کے بیچ
اک خط سیاہ چاہتا ہوں

ڈرتا ہوں بہت بلندیوں سے
پستی سے نباہ چاہتا ہوں

وہ دن کہ تجھے بھی بھول جاؤں
اس دن سے پناہ چاہتا ہوں