سر بام ہجر دیا بجھا تو خبر ہوئی
سر شام کوئی جدا ہوا تو خبر ہوئی
مرا خوش خرام بلا کا تیز خرام تھا
مری زندگی سے چلا گیا تو خبر ہوئی
مرے سارے حرف تمام حرف عذاب تھے
مرے کم سخن نے سخن کیا تو خبر ہوئی
کوئی بات بن کے بگڑ گئی تو پتہ چلا
مرے بے وفا نے کرم کیا تو خبر ہوئی
مرے ہم سفر کے سفر کی سمت ہی اور تھی
کہیں راستہ کوئی گم ہوا تو خبر ہوئی
مرے قصہ گو نے کہاں کہاں سے بڑھائی بات
مجھے داستاں کا سرا ملا تو خبر ہوئی
نہ لہو کا موسم رنگ ریز نہ دل نہ میں
کوئی خواب تھا کہ بکھر گیا تو خبر ہوئی
غزل
سر بام ہجر دیا بجھا تو خبر ہوئی
افتخار عارف