EN हिंदी
گلزار شیاری | شیح شیری

گلزار شیر

49 شیر

اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا

گلزار




آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی

گلزار




چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں
دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں

گلزار




چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی
کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں

گلزار




دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی

گلزار




دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

گلزار




دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی

گلزار




ایک ہی خواب نے ساری رات جگایا ہے
میں نے ہر کروٹ سونے کی کوشش کی

گلزار




ایک سناٹا دبے پاؤں گیا ہو جیسے
دل سے اک خوف سا گزرا ہے بچھڑ جانے کا

گلزار