زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا
غزل
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
گلزار