ذکر آئے تو مرے لب سے دعائیں نکلیں
شمع جلتی ہے تو لازم ہے شعاعیں نکلیں
وقت کی ضرب سے کٹ جاتے ہیں سب کے سینے
چاند کا چھلکا اتر جائے تو قاشیں نکلیں
دفن ہو جائیں کہ زرخیز زمیں لگتی ہے
کل اسی مٹی سے شاید مری شاخیں نکلیں
چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں
دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں
غار کے منہ پہ رکھا رہنے دو سنگ خورشید
غار میں ہاتھ نہ ڈالو کہیں راتیں نکلیں
غزل
ذکر آئے تو مرے لب سے دعائیں نکلیں
گلزار