آنکھوں میں جل رہا ہے پہ بجھتا نہیں دھواں
اٹھتا تو ہے گھٹا سا برستا نہیں دھواں
پلکوں کے ڈھانپنے سے بھی رکتا نہیں دھواں
کتنی انڈیلیں آنکھیں پہ بجھتا نہیں دھواں
آنکھوں سے آنسوؤں کے مراسم پرانے ہیں
مہماں یہ گھر میں آئیں تو چبھتا نہیں دھواں
چولھے نہیں جلائے کہ بستی ہی جل گئی
کچھ روز ہو گئے ہیں اب اٹھتا نہیں دھواں
کالی لکیریں کھینچ رہا ہے فضاؤں میں
بورا گیا ہے منہ سے کیوں کھلتا نہیں دھواں
آنکھوں کے پوچھنے سے لگا آگ کا پتہ
یوں چہرہ پھیر لینے سے چھپتا نہیں دھواں
چنگاری اک اٹک سی گئی میرے سینے میں
تھوڑا سا آ کے پھونک دو اڑتا نہیں دھواں
غزل
آنکھوں میں جل رہا ہے پہ بجھتا نہیں دھواں
گلزار