EN हिंदी
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں | شیح شیری
KHud masiha KHud hi qatil hain to wo bhi kya karen

غزل

خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں

فانی بدایونی

;

خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
زخم پیدا کریں یا زخم دل اچھا کریں

دل رہے آلودہ دامن اور ہم دیکھا کریں
آج اے اشک ندامت آ تجھے دریا کریں

جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح
خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں

خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی
موسم گل آ گیا زنداں میں بیٹھے کیا کریں

جا بجا تغییر حال دل کے چرچے ہیں تو ہوں
ہم ہوئے رسوا مگر اب ہم کسے رسوا کریں

ہاں نہیں شرط مروت حسرت تاثیر درد
رحم آ ہی جائے گا ان سے تقاضا کیا کریں

شوق نظارہ سلامت ہے تو دیکھا جائے گا
ان کو پردہ ہی اگر منظور ہے پردا کریں

ظرف ویرانہ بہ قدر ہمت وحشت نہیں
لاؤ ہر ذرہ میں پیدا وسعت صحرا کریں

مرگ بے ہنگام فانیؔ وجہ تسکیں ہو چکی
زندگی سے آپ گھبراتے ہیں گھبرایا کریں