خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
زخم پیدا کریں یا زخم دل اچھا کریں
دل رہے آلودہ دامن اور ہم دیکھا کریں
آج اے اشک ندامت آ تجھے دریا کریں
جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح
خیر جو چاہا کیا اب یہ بتا ہم کیا کریں
خون کے چھینٹوں سے کچھ پھولوں کے خاکے ہی سہی
موسم گل آ گیا زنداں میں بیٹھے کیا کریں
جا بجا تغییر حال دل کے چرچے ہیں تو ہوں
ہم ہوئے رسوا مگر اب ہم کسے رسوا کریں
ہاں نہیں شرط مروت حسرت تاثیر درد
رحم آ ہی جائے گا ان سے تقاضا کیا کریں
شوق نظارہ سلامت ہے تو دیکھا جائے گا
ان کو پردہ ہی اگر منظور ہے پردا کریں
ظرف ویرانہ بہ قدر ہمت وحشت نہیں
لاؤ ہر ذرہ میں پیدا وسعت صحرا کریں
مرگ بے ہنگام فانیؔ وجہ تسکیں ہو چکی
زندگی سے آپ گھبراتے ہیں گھبرایا کریں
غزل
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
فانی بدایونی