میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
اس کرم کی کچھ انتہا ہی نہیں
کشتئ اعتبار توڑ کے دیکھ
کہ خدا بھی ہے نا خدا ہی نہیں
میری ہستی گواہ ہے کہ مجھے
تو کسی وقت بھولتا ہی نہیں
اب اسے ناامید کیوں کہیے
دل کو توفیق مدعا ہی نہیں
غم میں لذت کہاں کہ دل نہ رہا
ہائے وہ حسرت آشنا ہی نہیں
وہی تو ہے وہی تری محفل
ایک فانیؔ مبتلا ہی نہیں
غزل
میرے لب پر کوئی دعا ہی نہیں
فانی بدایونی