خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے
آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے
عتیق اللہ
آئینہ آئینہ تیرتا کوئی عکس
اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے
عتیق اللہ
اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں
رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے
عتیق اللہ
ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے
دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے
عتیق اللہ
ہم زمیں کی طرف جب آئے تھے
آسمانوں میں رہ گیا تھا کچھ
عتیق اللہ
فضا میں ہاتھ تو اٹھے تھے ایک ساتھ کئی
کسی کے واسطے کوئی دعا نہ کرتا تھا
عتیق اللہ
دن کے ہنگامے جلا دیتے ہیں مجھ کو ورنہ
صبح سے پہلے کئی مرتبہ مر جاتا ہوں
عتیق اللہ
بڑی چیز ہے یہ سپردگی کا مہین پل
نہ سمجھ سکو تو مجھے گنوا کے بھی دیکھنا
عتیق اللہ
اپنے سوکھے ہوئے گلدان کا غم ہے مجھ کو
آنکھ میں اشک کا قطرہ بھی نہیں ہے کوئی
عتیق اللہ