EN हिंदी
آسماں کا ستارہ نہ مہتاب ہے | شیح شیری
aasman ka sitara na mahtab hai

غزل

آسماں کا ستارہ نہ مہتاب ہے

عتیق اللہ

;

آسماں کا ستارہ نہ مہتاب ہے
قلب گہہ میں جو اک جنس نایاب ہے

آئینہ آئینہ تیرتا کوئی عکس
اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے

اور ہے شمع کے بطن میں روشنی
تیرے آئینے میں اور ہی آب ہے

یہ چراغ اور ہے وہ ستارہ ہے اور
اور آگے جو اک ہجر کا باب ہے

اور پھیلی ہوئی ہے جو اک دھند سی
اور عقب میں جو اک زینۂ خواب ہے

بس وہ لمحہ جو تجھ سے عبارت ہوا
باقی جو چیز ہے وہ فنا یاب ہے

خواب نے تو رقم کر دیا تھا تجھے
حاصل شب یہی چشم پر آب ہے