جب بھی تنہائی کے احساس سے گھبراتا ہوں
میں ہر اک چیز میں تحلیل سا ہو جاتا ہوں
میں کسی جسم پہ پھینکا ہوا پتھر تو نہ تھا
بارہا اپنا لہو دیکھ کے شرماتا ہوں
رات جو کچھ مجھے دیتی ہے سحر سے پہلے
وقت کے گہرے سمندر میں اتار آتا ہوں
دن کے ہنگامے جلا دیتے ہیں مجھ کو ورنہ
صبح سے پہلے کئی مرتبہ مر جاتا ہوں
ایک نشے کی طرح ٹوٹ گیا ہوں خود سے
اپنے نزدیک بھی مشکل سے نظر آتا ہوں
غزل
جب بھی تنہائی کے احساس سے گھبراتا ہوں
عتیق اللہ