مرے سپرد کہاں وہ خزانہ کرتا تھا
سلوک کرتا تھا اور غائبانہ کرتا تھا
عجیب اس کی طلب تھی عجب تھا اسپ سوار
کہ ملک و مال کی پروا ذرا نہ کرتا تھا
شعار زیست ہنر تھا سو ہم نہ جان سکے
جو کام ہم نے کیا دوسرا نہ کرتا تھا
سفر گرفتہ رہے کشتگان نان و نمک
ہمارے حق میں کوئی فیصلہ نہ کرتا تھا
فضا میں ہاتھ تو اٹھے تھے ایک ساتھ کئی
کسی کے واسطے کوئی دعا نہ کرتا تھا
تمام صورت ترتیب اس کو آتی ہے
اگرچہ خیر کو شر سے جدا نہ کرتا تھا
وہ قلب گاہ تمنا میں اک چراغ کی لو
کو تیز رکھتا تھا نذر ہوا نہ کرتا تھا
اٹھا رکھا تھا اسی پر سے اعتبار تمام
اور انتظار بھی اس کا زمانہ کرتا تھا
انہیں گھروں سے عبارت ہے اپنی شام جہاں
چراغ طاق بھی اکثر جلا نہ کرتا تھا
غزل
مرے سپرد کہاں وہ خزانہ کرتا تھا
عتیق اللہ