EN हिंदी
دل کے نزدیک تو سایا بھی نہیں ہے کوئی | شیح شیری
dil ke nazdik to saya bhi nahin hai koi

غزل

دل کے نزدیک تو سایا بھی نہیں ہے کوئی

عتیق اللہ

;

دل کے نزدیک تو سایا بھی نہیں ہے کوئی
اس خرابے میں تو آیا بھی نہیں ہے کوئی

ہر سراغ اپنی جگہ ریت میں معدوم ہوا
دور تک نقش کف پا بھی نہیں ہے کوئی

اپنے سوکھے ہوئے گلدان کا غم ہے مجھ کو
آنکھ میں اشک کا قطرہ بھی نہیں ہے کوئی

دور سے ایک ہیولیٰ سا نظر آتا ہے
پاس سے دیکھو تو ملتا بھی نہیں کوئی

کتنے دن ہوتے ہیں ہاتھوں میں قلم تک نہ لیا
کاغذوں میں نظر آتا بھی نہیں ہے کوئی

ایک ہی سطر لکھی تھی کہ یہ احساس ہوا
لفظ اور معنی میں رشتہ بھی نہیں ہے کوئی