آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
ساغر صدیقی
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
ساغر صدیقی
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
ساغر صدیقی
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
ساغر صدیقی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
ساغر صدیقی
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
ساغر صدیقی
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا
ساغر صدیقی
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
ساغر صدیقی