EN हिंदी
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے | شیح شیری
baat phulon ki suna karte the

غزل

بات پھولوں کی سنا کرتے تھے

ساغر صدیقی

;

بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

ترک احساس محبت مشکل
ہاں مگر اہل وفا کرتے تھے

بکھری بکھری ہوئی زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے ساغرؔ
شکوۂ باد صبا کرتے تھے