EN हिंदी
ساغر صدیقی شیاری | شیح شیری

ساغر صدیقی شیر

41 شیر

اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا

ساغر صدیقی




بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

ساغر صدیقی




بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے

ساغر صدیقی




چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے

ساغر صدیقی




آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

ساغر صدیقی




دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

ساغر صدیقی




ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام
اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام

ساغر صدیقی




غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں

ساغر صدیقی




ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

ساغر صدیقی