EN हिंदी
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں | شیح شیری
hai dua yaad magar harf-e-dua yaad nahin

غزل

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

ساغر صدیقی

;

ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں

میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں