چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
ساغر صدیقی
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا
ساغر صدیقی
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
ساغر صدیقی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
ساغر صدیقی
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
ساغر صدیقی
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
ساغر صدیقی
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
ساغر صدیقی