وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی
اک ترے وصل کی گھڑی ہوگی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی
کیا خبر تھی کہ نوک خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی
زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہوگی
التجا کا ملال کیا کیجے
ان کے در پر کہیں پڑی ہوگی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
غزل
وقت کی عمر کیا بڑی ہوگی
ساغر صدیقی