یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
ساغر صدیقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
زلف برہم کی جب سے شناسا ہوئی
زندگی کا چلن مجرمانہ ہوا
ساغر صدیقی
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر صدیقی
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
ساغر صدیقی
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
ساغر صدیقی
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
ساغر صدیقی
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
ساغر صدیقی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
ساغر صدیقی