آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ناصر کاظمی
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
ناصر کاظمی
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
ناصر کاظمی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
ناصر کاظمی
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
ناصر کاظمی