EN हिंदी
ناصر کاظمی شیاری | شیح شیری

ناصر کاظمی شیر

76 شیر

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

ناصر کاظمی




آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی

ناصر کاظمی




دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

ناصر کاظمی




دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی




دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ناصر کاظمی




دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

ناصر کاظمی




دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

ناصر کاظمی




گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

ناصر کاظمی




گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

ناصر کاظمی