EN हिंदी
ناصر کاظمی شیاری | شیح شیری

ناصر کاظمی شیر

76 شیر

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں

ناصر کاظمی




جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

ناصر کاظمی




جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا

ناصر کاظمی




جرم امید کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے

ناصر کاظمی




کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی

ناصر کاظمی




کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو

ناصر کاظمی




کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

ناصر کاظمی




کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی

ناصر کاظمی




کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

ناصر کاظمی