EN हिंदी
ناصر کاظمی شیاری | شیح شیری

ناصر کاظمی شیر

76 شیر

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

ناصر کاظمی




آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی




کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

ناصر کاظمی




مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ناصر کاظمی




مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

ناصر کاظمی




مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے

ناصر کاظمی




میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں
تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ

ناصر کاظمی




میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی

ناصر کاظمی