دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ناصر کاظمی
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
ناصر کاظمی
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
ناصر کاظمی
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ناصر کاظمی
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا
ناصر کاظمی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
ناصر کاظمی
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
ناصر کاظمی
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
ناصر کاظمی
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی