آنکھ کس لفظ پہ بھر آئی ہے
کون سی بات پہ دل ٹوٹا ہے
خالد شریف
آج کچھ رنگ دگر ہے مرے گھر کا خالدؔ
سوچتا ہوں یہ تری یاد ہے یا خود تو ہے
خالد شریف
آج سے اک دوسرے کو قتل کرنا ہے ہمیں
تو مرا پیکر نہیں ہے میں ترا سایہ نہیں
خالد شریف
آسماں جھانک رہا ہے خالدؔ
چاند کمرے میں مرے اترا ہے
خالد شریف
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خالد شریف
خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا
خالد شریف
ناکام حسرتوں کے سوا کچھ نہیں رہا
دنیا میں اب دکھوں کے سوا کچھ نہیں رہا
خالد شریف
وہ تو گیا اب اپنی انا کو سمیٹ لے
اے غم گسار دست دعا کو سمیٹ لے
خالد شریف
زخم رسنے لگا ہے پھر شاید
یاد اس نے کیا ہے پھر شاید
خالد شریف