EN हिंदी
زخم رسنے لگا ہے پھر شاید | شیح شیری
zaKHm risne laga hai phir shayad

غزل

زخم رسنے لگا ہے پھر شاید

خالد شریف

;

زخم رسنے لگا ہے پھر شاید
یاد اس نے کیا ہے پھر شاید

سسکیاں گونجتی ہیں کانوں میں
گھر کسی کا جلا ہے پھر شاید

حاصل عمر کیا یہی کچھ ہے
یہ ابھی سوچنا ہے پھر شاید

در زنداں پہ پھر ہوئی دستک
کوئی درد آشنا ہے پھر شاید

پھر پرندے اڑے ہیں شاخوں سے
اک دھماکہ ہوا ہے پھر شاید

مسکراتے ہیں دیکھ دیکھ کے لوگ
امتحان وفا ہے پھر شاید