EN हिंदी
نارسائی ہے کہ تو ہے کیا ہے | شیح شیری
na-rasai hai ki tu hai kya hai

غزل

نارسائی ہے کہ تو ہے کیا ہے

خالد شریف

;

نارسائی ہے کہ تو ہے کیا ہے
یاد کر کے جسے جی ڈوبا ہے

اے غم جاں ترے غم خواروں کا
صبر اب حد سے سوا پہنچا ہے

آئینہ تھا کہ مرا پیکر تھا
تیری باتوں سے ابھی بکھرا ہے

آنکھ کس لفظ پہ بھر آئی ہے
کون سی بات پہ دل ٹوٹا ہے

مرے ہاتھوں کی لکیروں میں کوئی
زندگی بن کے چھپا بیٹھا ہے

آسماں جھانک رہا ہے خالدؔ
چاند کمرے میں مرے اترا ہے