EN हिंदी
رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا | شیح شیری
ruKHsat hua to baat meri man kar gaya

غزل

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا

خالد شریف

;

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا

کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا