وہ تو گیا اب اپنی انا کو سمیٹ لے
اے غم گسار دست دعا کو سمیٹ لے
بالوں میں اپنے ڈال لے اب خاک کوئے یار
بانہوں میں اس گلی کی ہوا کو سمیٹ لے
مٹی کی اک لکیر بھی کہہ دے گی داستاں
چلنے کا شوق ہے تو ردا کو سمیٹ لے
ان آبلوں کی روشنی بھٹکے گی شہر میں
اے کوچہ گرد گردش پا کو سمیٹ لے
لفظوں کو ترک کر دے کہ ان کو نہیں ثبات
آنکھوں میں آج اپنی وفا کو سمیٹ لے
بس ایک چپ ہی تیرے لبوں پر سجی رہے
بس اپنے دل میں سیل بلا کو سمیٹ لے
خالدؔ کبھی تو تذکرۂ جاں سنا ہمیں
اپنی صدا میں خوف صدا کو سمیٹ لے
غزل
وہ تو گیا اب اپنی انا کو سمیٹ لے
خالد شریف