EN हिंदी
جس کو پا کر ہم یہ سمجھے تھے کہ کچھ کھویا نہیں | شیح شیری
jis ko pa kar hum ye samjhe the ki kuchh khoya nahin

غزل

جس کو پا کر ہم یہ سمجھے تھے کہ کچھ کھویا نہیں

خالد شریف

;

جس کو پا کر ہم یہ سمجھے تھے کہ کچھ کھویا نہیں
وہ جو بچھڑا ہے تو جیسے کوئی بھی اپنا نہیں

وہ ابھی شاداب ہے جنگل کے پھولوں کی طرح
اس کے چہرے پر گئے موسم نے کچھ لکھا نہیں

آج سے اک دوسرے کو قتل کرنا ہے ہمیں
تو مرا پیکر نہیں ہے میں ترا سایہ نہیں

میں نے کیسے پیارے پیارے لوگ سونپے تھے تجھے
اے غم جاں اے غم جاں یہ مری دنیا نہیں

میں اسے کیسے پکاروں کس طرح آواز دوں
جس کو اپنا کہہ نہ پاؤں اور بیگانہ نہیں

آ کہ پہلے آبلوں کے زخم ہی تازہ کریں
اے مرے ذوق سفر اب کوئی بھی صحرا نہیں

ہم سفر بھی تھا مگر اذن شناسائی نہ تھا
وہ مرے پہلو میں تھا اور میں نے پہچانا نہیں