جس کو پا کر ہم یہ سمجھے تھے کہ کچھ کھویا نہیں
وہ جو بچھڑا ہے تو جیسے کوئی بھی اپنا نہیں
وہ ابھی شاداب ہے جنگل کے پھولوں کی طرح
اس کے چہرے پر گئے موسم نے کچھ لکھا نہیں
آج سے اک دوسرے کو قتل کرنا ہے ہمیں
تو مرا پیکر نہیں ہے میں ترا سایہ نہیں
میں نے کیسے پیارے پیارے لوگ سونپے تھے تجھے
اے غم جاں اے غم جاں یہ مری دنیا نہیں
میں اسے کیسے پکاروں کس طرح آواز دوں
جس کو اپنا کہہ نہ پاؤں اور بیگانہ نہیں
آ کہ پہلے آبلوں کے زخم ہی تازہ کریں
اے مرے ذوق سفر اب کوئی بھی صحرا نہیں
ہم سفر بھی تھا مگر اذن شناسائی نہ تھا
وہ مرے پہلو میں تھا اور میں نے پہچانا نہیں
غزل
جس کو پا کر ہم یہ سمجھے تھے کہ کچھ کھویا نہیں
خالد شریف